پاکستانی فلموں کے ارتقا کی اپنی ایک کہانی ہے، جس میں بلیک اینڈ وائٹ فلموں سے بتدریج رنگین فلموں تک کا ارتقا ایک دلچسپ داستان چھپائے ہوئے ہے۔
پاکستان میں جب رنگین فلموں کا آغاز ہوا تو آغا جی اے گل کی پہلی رنگین فلم ’’عذرا‘‘ 13 اپریل 1962 کو ریلیز ہوئی۔ اس فلم کی ریلیز سے پچیس سال قبل برصغیر کی پہلی رنگین فلم ’’کسان کنہیا‘‘ ریلیز ہوچکی تھی۔
تاہم ہدایت کار منشی دل اور فلمساز آغا جی اے گل کی فلم عذرا کے صرف گانے رنگین تھے۔ عذرا کے بعد کہا جاتا ہے کہ ’’گل بکاؤلی‘‘ کے نغمات بھی رنگین فلمبند ہوئے لیکن یہ درست نہیں‘ یوٹیوب پر’’گل بکاؤلی‘‘ موجود ہے لیکن اس کے تمام گانے بلیک اینڈ وائٹ ہیں اور یہ فلم 12 جون 1970 کو ریلیز ہوئی تھی۔
مکمل رنگین فلم مشرقی پاکستان میں ’’سنگم‘‘ 13 اپریل 1964 کو عیدالاضحیٰ کے دن ریلیز ہوئی۔ یہ فلم ’’ایسٹ مین کلر‘‘ میں تھی۔
سنگم کی شوٹنگ کےلیے سابقہ مشرقی پاکستان کے جنوب مشرقی علاقہ رنگاماتی میں آؤٹ ڈور مقامات کا انتخاب کیا گیا۔ سابق مشرقی پاکستان میں رنگاماتی کے علاوہ ہل ٹریس کے جنگلات میں بھی اس کی شوٹنگ کی گئی۔ اس فلم میں چھ گانے تھے، فلمساز و ہدایت کار ظہیر ریحان کی اس فلم کا ایک نغمہ ’’ہزار سال کا جو بڈھا مرگیا دھوم دھام سے اْسے دفن کرو‘‘ نے مقبولیت حاصل کی اور ریڈیو پاکستان کراچی سے ستر اور اسی کی دہائی تک نشر ہوتا رہا۔
ایک بنگالی ویب سائٹ کے مطابق پاکستانی کی دوسری رنگین فلم ’’ساگر‘‘ تھی۔ مغربی پاکستان میں پہلی رنگین فلم رضیہ بٹ کے ناول سے ماخوذ ’’نائلہ‘‘ 29 اکتوبر 1965 کو ریلیز ہوئی۔ فلمساز آغا جی اے گل اور ہدایت کار شریف نیئر کی نائلہ کی عکس بندی ایورنیو اسٹوڈیو میں کی گئی۔ نائلہ ’’اگفا کلر‘‘ پر بنائی گئی اور فلم کے انگریزی ٹائٹل پر اگفا کلر کا ٹریڈ مارک بھی دکھایا گیا۔
اس کے بعد پاکستان میں بننے والی فلموں کے ساتھ فلم بنانے والی کمپنیوں کے نام لکھنے کا آغاز ہوا اور یہ نام صرف فلموں کے ٹائٹل پر ہی نہیں بلکہ پوسٹر میں بھی لکھے گئے، مثلاً فیوجی کلر، ایسٹ مین کلر، گیوا کلر، اور اگفا کلر وغیرہ۔ اس کے بعد اخبارات کے اشتہارات میں بھی فلم (سیلولائیڈ شیٹ یا نگیٹو) کے نام لکھنے آغاز ہوا۔
پہلا رنگین نغمہ فلم ’’عذرا‘‘ کا جس کے بول تھے ’’کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے‘‘ ایک ہی جگہ شوٹ کیا گیا اور پورے تسلسل پر پیلا رنگ چھایا رہا اوراس رنگ کو دکھانے کا مقصد شاید یہ تھا کہ منظر سورج کی روشنی میں ہے۔ اس کے برعکس فلم نائلہ کے نغمے ’’مجھے آرزو تھی جس کی‘‘ کے قریبی تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نغمے کو اگفا کے بجائے کسی پرانے فلم کے اسٹاک پر شوٹ کیا گیا۔ ان گانوں میں شمیم آرا کا لباس متحرک سرخ اور زیورات زرد ہیں، شمیم آرا کو نمایاں کرنے کےلیے دیوار کو سفید رکھا گیا تھا۔ اس گانے میں رنگ بے ترتیب طور پر گہرے یا پھر روشن ہوجاتے ہیں۔
اسی فلم کے دوسرے نغمے ’’دور ویرانے میں اک شمع ہے اب تک روشن‘‘ کو بھی پرانے فلم اسٹاک پر شوٹ کیا گیا تھا۔ پورے نغمے میں رنگ انتہائی کمزور پڑجاتے ہیں۔ شمیم آرا اور سنتوش کمار پر شوٹ کیے گئے چار منٹ کے اس نغمے میں چند سیکنڈ کے مناظر سیر شدہ رنگ بھی نہیں ملتے بلکہ مناظر بلیک اینڈ وائٹ بھی ہوجاتے ہیں۔ ان دونوں نغموں (مجھے آرزو تھی جس کی اور دور ویرانے میں اک شمع) میں رنگین درجہ بندی کلر گریڈنگ میں ضرور رکھی گئی۔ ’’نائلہ‘‘ نے فلمسازوں کو رنگین فلموں کی طرف مائل کیا۔ جب نائلہ کو رنگین بنانے کا اعلان ہوا تو ان کے فنکاروں میں شامل درپن سب سے زیادہ خوش ہوئے۔ نائلہ کا ایک منظر شمیم آرا اور درپن پر فلمبند کرنے کی تیاری ہوئی اور درپن کو ہاتھ چھڑی تھماکر اداکاری کرنی تھی۔ درپن چونکہ بہت زیادہ خوش تھے اس لیے انہوں نے چھڑی پر سرخ، سبز اور زرد رنگوں کے ٹیپ لگانے کا آئیڈیا دیا اور عکس بندی کے دوران ہی درپن نے رنگین ٹیپ بازار سے منگوا کر خود چھڑی پر لگائے۔ درپن کا مقصد سرخ، سبز اور زرد رنگوں کو نمایاں دکھانا تھا۔
نائلہ کے بعد پہلی رنگین پنجابی فلم ’’پنج دریا‘‘ 22 دسمبر 1968 کو ریلیز ہوئی۔ ہدایت کار جعفر خان کی فلم پنج دریا کی کیمیکل پروسسنگ ایور گرین لیبارٹری لاہور میں کی گئی، جبکہ اس کی تیاری کے مراحل اسکرین اینڈ ساؤنڈ اسٹوڈیو فیروز پور روڈ لاہور میں ہوئے۔ اسکرین اینڈ ساؤنڈ اسٹوڈیو کا نام تقسیم سے قبل ’’لیلا مندر اسٹوڈیو‘‘ تھا۔ نائلہ کے برعکس پنج دریا میں سرخ اور سبز رنگوں کی چھاپ زیادہ رکھی گئی۔ دوسری پنجابی رنگین فلم ہدایت کار حیدر چوہدری کی ’’پہلوان جی اِن لندن‘‘ تھی جو 20 نومبر 1971 کو ریلیز ہوئی۔ پہلوان جی اِن لندن ایسٹ مین کلر پر تیار ہوئی، اس میں بھی گہرے اور ہلکے زرد رنگ کی زیادہ چھاپ زیادہ ہے۔
چونکہ رنگین فلموں کا بجٹ زیادہ ہوتا تھا تو تجرباتی طور پر پنجابی فلموں میں چند گانے رنگین فلمبند ہوئے۔ ایسی ہی فلموں میں منور ظریف کی ’’خوشیا‘‘ فلم شامل ہے جس کے کچھ گانے رنگین فلمبند ہوئے۔ ہدایت کار کیفی کی فلم ’’سچا سودا‘‘ بھی جزوی طور پر رنگین بنائی گئی تھی۔
رنگین فلموں کے آغاز کے ابتدائی دور میں ایک ہزار فٹ بلیک اینڈ وائٹ فلم اسٹاک کی قیمت تقریباً 410 روپے اور اتنے ہی فٹ رنگین فلم اسٹاک کی قیمت 1500 روپے تھی۔ 1980 کی دہائی کے آخر میں رنگین فلموں کی قیمتوں میں کمی آئی۔ اس کی وجہ پوری انڈسٹری کا رنگین فلموں پر منتقل ہونا تھا۔
ایورنیو اسٹوڈیو میں استعمال ہونے والے کیمرے رنگین اور بلیک اینڈ وائٹ دونوں فلموں کےلیے استعمال ہوتے تھے۔ 60 کی دہائی میں ایورنیو اسٹوڈیو میں مچل (Mitchell) اور ایری (Arri) کیمرے تھے۔ یہ دونوں کیمرے ایک عرصے تک بلیک اینڈ وائٹ اور رنگین فلموں کی عکس بندی کےلیے استعمال ہوئے۔ اس کے بعد سنیما اسکوپ فلموں کےلیے ایری تھری اور سنیما اسکوپ ٹو کیمروں نے ان کی جگہ لے لی۔ پاکستان کی پہلی رنگین لیبارٹری لاہور میں فیروز پور روڈ کے علاقے رحمان پورہ میں قائم کی گئی، اس کا نام اسکرین اینڈ ساؤنڈ اسٹوڈیو تھا۔ ہدایت کار وزیرعلی کی 1962 میں ریلیز ہونے والی فلم ’’ایک دل دو دیوانے‘‘ پہلی فلم تھی جس کی پروسیسنگ اسکرین اینڈ ساؤنڈ اسٹوڈیو میں ہوئی۔
فلم انڈسٹری کے ابتدائی دور میں پاکستان میں وسائل کی کمی کی وجہ سے ٹیکنی کلر اور’’کوڈاکروم‘‘ فلمیں ہی بنیں۔ ٹیکنی کلر میں فلم کی عکس بندی کےلیے ایک کے بجائے دو الگ الگ فلموں کی پٹیاں استعمال ہوتی تھیں۔ یہ گہرے سرخ اور نیلے رنگ کی پٹیاں ہوتی تھی، فلم بندی کے بعد پروسیسنگ لیبارٹری میں رنگین پرنٹس بنانے کےلیے کیمیائی مادوں کو استعمال کرتے ہوئے ان کو ایک دوسرے پر لیپ کردیا جاتا تھا۔
اس کے بعد جاپانی فیوجی کلر بھی متعارف ہوا۔ ان فلموں کی ڈیولپمنٹ، پاکستان میں نہیں ہوتی تھی۔ فیوجی کے کچھ عرصے بعد جرمنی کے ’’اگفا کلر‘‘ نے نائلہ کے بعد ایک بار پھر پاکستان فلم انڈسٹری میں قدم رکھا اور 1969 میں شباب کیرانوی نے اپنی پہلی فلم ’’تم ہی ہو محبوب میرے‘‘ اگفا کلر پر بنائی۔ 1969 میں جب ’’تم ہی ہو محبوب میرے‘‘ کے اشتہارات اخبارات میں شائع ہوئے تو اس کو ’’مکمل رنگین فلم‘‘ لکھا گیا۔ اس سے قبل جزوی رنگین فلموں کا آغاز ہوچکا تھا۔ پوری فلم بلیک اینڈ وائٹ ہوتی تھی جبکہ گانے رنگین فلم بند ہوتے تھے، ایسی فلموں کے اخبارات میں شائع ہونے والے اشتہارات میں ’’جزوی رنگین‘‘ لکھا جاتا تھا۔
اگفا کے مالکان ادھار میٹریل فراہم کرتے تھے اور پروسیس بھی کرادیتے تھے، اسی وجہ سے فلموں کے کریڈٹس میں ان کا نام بھی ہوتا تھا اور فلم کے اشتہار میں لکھا جاتا تھا۔
اگفا کے مالکان فلم انڈسٹری سے بھی وابستہ تھے اور سرمایہ کاری بھی کرتے رہے تھے۔ اگفا کلر کا کمبی نیشن ڈارک ہوتا تھا جو اسکرین پر فلم بینوں کو بھلا لگتا تھا۔ جب اگفا کے نام اشتہارات میں آئے تو فلم بنانے والی دیگر کمپنیوں کے مطالبات پر ان کے نام بھی اشتہارات اور فلم کے ٹائٹلز پر جاری کیے گئے جن میں گیوا کلر اور فیوجی کلر قابل ذکر ہیں۔