بالآخر جمعہ 9 جون کو مالی سال 2023-24 کا وفاقی بجٹ پیش کردیا گیا۔ لیکن ہمیشہ کی طرح مہنگائی کی چکی میں پستے ہوئے عوام اس بجٹ سے بھی مایوس ہی ہوئے ہیں۔ حکومت کے دعووں کے برعکس اس بجٹ کو عوام دوست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ تجزیہ کاروں کی نظر میں ’’یہ بجٹ الفاظ کا گورکھ دھندہ ہے‘‘۔
قومی اسمبلی میں جمعہ کو وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے نئے مالی سال 24-2023 کےلیے 144 کھرب 60 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا، جس میں ترقیاتی منصوبوں کےلیے 1150 ارب روپے جبکہ ملکی دفاع کےلیے 1804 ارب روپے مختص کیے گئے۔ نیز بجٹ میں 200 ارب روپے کے اضافی ٹیکسز عائد کیے گئے ہیں۔
ہر سال مالی بجٹ آنے پر ہر حکومت کی جانب سے ہی کئی دعوے کیے جاتے ہیں اور عوامی ریلیف کی باتیں بنائی جاتی ہیں لیکن بجٹ میں اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ کچھ ایسا شامل کیا جاتا ہے کہ عوام صرف اس چیستان میں ہی الجھ کر رہ جاتے ہیں۔
کیا طرفہ تماشا ہے کہ ہر حکومت ہی اپنی خراب کارکردگی کی ذمے داری سابقہ حکومت پر ڈال دیتی ہے۔ اس بجٹ کی تجاویز پیش کرنے سے قبل بھی بدترین معاشی اعداد و شمار کے اسباب بیان کرتے ہوئے ملبہ سابقہ حکومت پر ڈال دیا گیا۔
وزیر خزانہ نے یہ تو کہا کہ مخلوط حکومت کے مشکل فیصلوں کی وجہ سے پاکستان ڈیفالٹ سے بچ گیا، اور حکومت نے آئی ایم ایف کی نویں جائزے کی تمام شرائط کو پورا کرلیا ہے۔ لیکن موصوف یہ بتانا بھول گئے کہ ان شرائط کو پورا کرنے کے باعث عوام کو جن کٹھنائیوں سے گزرنا پڑے گا اس کا ازالہ کیسے ہوگا؟